اسی کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں
بےنظیر بھٹو نے پیپلزپارٹی کی قیادت کرتے ہوئے پارٹی کو منظم کیا اور اپنی قائدانہ
صلاحیتوں کا لوہا منوانا شروع کیا۔ اسی دوران نصرت بھٹو نے بے نظیر کے لئے کسی
مناسب رشتے کی تلاش شروع کی۔ بے نظیر کے لئے رشتوں کی کمی نہ تھی مگر بھٹو خاندان
کی سیاسی ساکھ اور بےنظیر کا پارٹی سربراہ ہونا ایسے معاملات تھے جس کی وجہ سے
نصرت بھٹو بے نظیر کی شادی کا قدم بہت سوچ سمجھ کر اٹھانا چاہتی تھیں۔ اسی دوران نصرت بھٹو اس معاملے پر راہنمائی کے
لئے اک صاحب علم بزرگ سے ملتی ہیں اور ان سے راہنمائی کی درخواست کرتی ہیں۔
کہتےہیں کہ بزرگ نے نصرت بھٹو کو مشورہ
دیا کہ بے نظیر کے رشتے کو طے کرتے ہوئےاپنے ہونے والے داماد کا انتخاب خوبیوں کی
بنیاد پر کریں اور تعصب کو اپنے فیصلے کی بنیاد نہ بنائیں۔ بزرگ نےنصرت بھٹو سے مزید
کہا کہ اگر وہ ان کے مشورہ کے مطابق بے نظیر کا رشتہ طے کریں گی تو یہ ان کے
خاندان، پارٹی اور ملک کے لئے مبارک ثابت ہوگا۔ اور اگر وہ تعصب کو اپنے فیصلے کی
بنیاد بنائیں گی تو بھٹو خاندان کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ نہ صرف پارٹی اور ملک
زبوں حالی کا شکار ہو گا بلکہ بھٹو پر جان نچھاور کرنے والے بھٹو کے نام کو دھوکہ
کی علامت سمجھتے ہوئے دور ہو جائیں گے،
بزرگ کی باتیں سن کر نصرت بھٹو چونک
اٹھیں اور اس وعدہ کے ساتھ وہاں سے روانہ ہوئیں کہ وہ ان کے مشورہ پر عمل کریں گی۔
بے نظیر کے لئے رشتہ کی تلاش جاری تھی کچھ عرصہ تک تو بیگم نصرت بھٹو کو بزرگ کی
باتیں یاد رہیں۔ پھر بزرگ کی باتیں ان کے ذہن سے نکلنے لگیں۔ اور جب بے نظیر کا
رشتہ طے کرنے کا وقت آیا تو وہ ایسی بھولیں کہ اک نہیں بلکہ رشتہ تین تعصبات کی بنیاد
پر آصف زرداری سے طے کردیا۔
نصرت بھٹو کی پہلی خواہش تھی کہ ان کا
ہونے والا داماد سندھ سے ہو، یہ پہلا تعصب تھا۔ پھر وہ چاہتی تھیں کہ ان کا ہونے
والا داماد اندرون سندھ سے ہو، یہ دوسرا تعصب تھا۔ ان دونوں باتوں سے بڑھ کر بیگم
نصرت بھٹو چاہتی تھیں کہ ان کا ہونے والا داماد شیعہ مسلک سے تعلق رکھتا ہو، یہ تیسرا
تعصب تھا۔ کہتے ہیں کہ ان تین میں سے اگر اک تعصب بھی کم ہوتا تو آصف زرداری کے
نام قرعہ فال کبھی نہ نکلتا۔ آصف زرداری کو بیگم نصرت بھٹو نے محض اندرون سندھ اور
شیعہ مسلک سے تعلق کی بنیاد پر داماد بنانے کا فیصلہ کیا تو یہ بزرگ کی باتوں کے بالکل
برعکس معاملہ ہوا۔ یعنی آصف زرداری انڈر میٹرک تھا، اسکا کوئی سیاسی پس منظر نہیں
تھا، اس کی شخصیت انتہائی پچیدہ اور وہ خود زندگی میں کوئی اعلی خیالات رکھنے کی
بجائے عیش وعشرت اور پیسہ جوڑنے کا دلدادہ تھا۔
بے نظیر کی شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی بیگم
نصرت بھٹو کو کھٹکنے لگا کہ انھوں سے داماد کے انتخاب میں غلیطی سرزد ہوئی ہے۔ مرتضی
بھٹو کی وطن واپسی کے بعد بیگم بھٹو نے کھل کر بیٹے کا ساتھ دیا۔ مرتضی بھٹو کے
آصف زرداری سے اختلافات اس قدر بڑھے کہ مرتضی بھٹونے آصف زرداری کی مونچھیں مونڈ
ڈالیں۔ کچھ عرصہ کے بعد جب بے نظیر ملک کی وزیر اعظم ہوتی ہیں مرتضی بھٹو کو قتل
کردیا جاتا ہے۔ صدمے سے نڈھال نصرت بھٹو کو سکون آور انجیکشن سے خاموش کروادیاگیا۔
اس واقعے کے بعد خاص اہتمام کیا گیا کہ نصرت بھٹو ہوش میں نہ آ سکیں اور وقفے وقفے
سے انہیں انجیکشن دئیے جاتے رہے تا وقت کہ وہ خالق حقیقی سے جا ملیں۔
وقت نے ثابت کیا کہ بزرگ کے مشورے سے
رو گردانی کرنے سے نہ صرف بھٹو خاندان کا شیرازہ بکھر گیا بلکہ بھٹو کا نام ساتھ
لگا کرکچھ جعلی بھٹو وجود میں آچکے ہیں۔ بھٹو پر جان دینے والے اب کہتے ہیں کہ ہم
مہنگائی سے مر گئے اور بھٹو اب بھی زندہ ہے۔ گرمی سے مرتے جیالے سوال کرتے ہیں کہ
ہم جیتے جی مر گئے اور بی بی اب بھی زندہ ہے۔ پیپلز پارٹی اپنی زندگی کی آخری سانیس
لے رہی ہے۔ گڑھی خدابخش میں بھٹو خاندان کے مزارات بلند ہو چکے ہیں اور آصف زرداری
نے پوری دنیا میں محلات کھڑے کر لئے ہیں۔ پاکستانی عوام اور پاکستان پر جو گزری سو
گزری مگر آصف زرداری نے جو درگت پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان کی بنائی ہےاس پر بیگم
نصرت بھٹو کی روح کہہ اٹھی ہو گی ۔۔۔ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
0 blogger-facebook:
Post a Comment