جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ آنے کے بعد پاکستان
تحریک انصاف جہاں خاصے دباءو میں نظر آرہی ہے وہیں پارٹی کے اندرونی اختلافات بھی
کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ حامد خان کے بیان کے بعد تحریک انصاف میں گروہ بندی کی قیاس
آرائیوں کو اور تقویت ملی ہے۔ ان حالات میں پیپلزپارٹی کے کی قدرتی ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے
میں سیاسی لحاظ سے مضبوط امیدواروں کا تحریک انصاف میں شامل ہونا پارٹی اور اس کے
نوجوان کارکنوں کے لئے اطمینان کا باعث بن رہا ہے۔
اطلاعات کے مطابق تحریک انصاف پنجاب کے
کنوئنیر چوہدری سرور کی کوششوں سے سابق وفاقی وزیر فردوس عاشق اعوان اور چوہدری
غلام عباس ساتھیوں سیمت جلد پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کرنے والے ہیں۔
دوسری سیاسی جماعتوں خصوصا پیپلز پارٹی سے وسیع پیمانے پر سیاسی شخصیات کو تحریک انصاف میں خوش آمدید کہنے پر پارٹی کی سوچ میں اک واضح تبدیلی کا اظہار ہوتا ہے۔ 2013 کے عام انتخابات کے برعکس اب تحریک انصاف سیاسی طور پر مضبوط امیدواروں کی بیناد پر اگلے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا نظر آتی ہے۔
سیاسی لحاظ سے خواہ یہ نئی حکمت عملی فائدہ مند ہی کیوں نہ ہو پھر بھی تحریک انصاف کو تبدیلی کے خواہش مند اپنے نوجوان کارکنوں کو مطمن کرنے کے لئے چند سوالوں کے جواب دینا ہوں گے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف میں شامل ہونے والی شخصیات ماضی میں مختلف حکومتوں کا حصہ رہی ہیں کیا ان کی موجودگی میں حقیقی تبدیلی آسکتی ہے؟
کیا پاکستانی سیاست کے روائتی انداز اپنا کر تحریک انصاف انقلابی روح سے محروم ہو کر نمک کی کان میں نمک ہو جائے گی؟
کیا محض اس بات پر یقین کر لیا جائے کہ عمران خان کی زیر قیادت آتے ہی روائتی سیاست کا حصہ رہنے والے اور اس سے ذاتی فائدہ اٹھانے والے یہ افراد تبدیلی کے سفر پر گامزن ہو جائیں گے؟
ان سوالوں کا جواب خواہ کچھ بھی ہو مگر یہ حقیقت ہے کہ بڑی سیاسی شخصیات کی تحریک انصاف میں شمولیت سے پارٹی پر دباو میں وقتی طور پر کمی ضرور آئے گی۔
0 blogger-facebook:
Post a Comment