14 سالہ
مَلَک الخطیب پر اسرائیل کی فوجی عدالت پر مقدمہ چلایا گیا اور دو ماہ جیل کی سزا سنائی گئی ہے۔ مغربی کنارے سے تعلق رکھنے والی اس بچی پر الزام ہے کہ اس نے چند گاڑیوں پر پتھراؤ کیا تھا۔
اسرائیلی ملٹری کورٹ نے ملک الخطیب کو
دو ماہ قید اور 1500 ڈالر جرمانہ کی سزا سنائی۔ اسرائیلی فوج کے مطابق اس کم سن
لڑکی پر گاڑیوں پر پتھراؤ اور پتھراؤ کی کوشش کے علاوہ اپنے پاس ایک چاقو رکھنے کے
الزامات عائد تھے۔
اس لڑکی کے والد علی الخطیب کا کہنا
ہے، ’’ایک 14 سالہ بچی فوجیوں کی جان کے لیے کیا خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔‘‘ الخطیب
نے مزید کہا، ’’وہ سب اسلحہ سے لیس اور مکمل تربیت یافتہ ہوتے ہیں، انہیں میری بچی
سے کس قسم کے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں؟‘‘
ملک الخطیب چار ہفتوں سے خواتین کی
اسرائیلی جیل میں ہے۔ ابھی اُسے مزید چار ہفتے کی قید کی سزا کاٹنا ہے۔
سالہ مَلَک الخطیب کے والد
|
اسرائیلی جیل میں قید نابالغ فلسطینی
اسرائیلی حکام کی حراست میں کُل ساڑھے
پانچ ہزار سے زائد فلسطینوں میں سے قریب 150 نابالغ یا کم سن بچے ہیں۔ ان میں
اکثریت لڑکوں کی ہے۔ یہ اعداد و شمار ایک اسرائیلی ہیومن رائٹس گروپ ’بیتسیلم‘ کی
طرف سے گزشتہ نومبر میں منظر عام پر لائے گئے ہیں۔ اسرائیلی حکام نے کہا ہے کہ ملک
الخطیب ان گنتی کی کم سن قیدی لڑکیوں میں شامل ہے جنہیں اُس نے جیل میں رکھا ہے۔
کیا پتھراؤ خطرناک عمل ہو سکتا ہے؟
فلسطینی اور ہیومن رائٹس گروپوں نے
اسرائیل پر تنقید کی ہے کہ وہ چاہے شہریوں پر ہو یا اسرائیلی فورسز پر ہونے والا
پتھراؤ اس کی سزا بہت سخت رکھی ہے۔ اُدھر اسرائیل پتھراؤ کو ایک خطرناک عمل اور
بعض اوقات زندگی تک کے لیے خطرہ قرار دیتا ہے۔ اسرائیلی حکام نے کہا ہے پتھراؤ کی
کارروائی عسکریت پسندی کی طرف پہلا قدم ثابت ہو سکتی ہے۔
گذشتہ برس اسرائیل کو فلسطینیوں کی
طرف سے متعدد حملوں اور فسادات کا سامنا رہا۔ یہ سلسلہ تین اسرائیلی ٹین ایجرز کے
قتل کے بعد یہودی انتہا پسندوں کی طرف سے انتقامی کارروائی کے طور پر ایک 16 سالہ
فلسطینی لڑکے کے بہیمانہ قتل سے شروع ہوا تھا۔ تب قریب 1000 فلسطینی مظاہرین کو
اسرائیلی حکام نے گرفتار کر لیا تھا ان میں سے زیادہ تر پتھراؤ کے جرم کے مرتکب
قرار پائے تھے۔ اسرائیلی پولیس نے کہا تھا کہ گرفتار ہونے والوں میں ایک بڑی تعداد
نابالغ بچوں کی ہے، جو اسکول کے بستے لیے اسرائیلی فوجیوں پر پتھراؤ کیا کرتے تھے۔
فلسطینی اس پتھراؤ کو اسرائیلی قبضے کے خلاف احتجاج کا ایک جائز طریقہ سمجھتے ہیں۔
0 blogger-facebook:
Post a Comment