Now you can Subscribe using RSS

Submit your Email

Wednesday 24 June 2015

آصف زرداری کی قبضے کی خواہش: پٹارو کیڈٹ کالج مری سے حکومت سندھ تک

Admin

انسان کی شخصیت چند بنیادی اوصاف پر مشتمل ہوتی ہے، اگر ان اوصاف کو سمجھ لیا جائے تو آپ اعتماد سے پیشگوئی کر سکتے ہیں کہ کن حالات میں فلاں شخص  کس طرح کا ردعمل دے گا۔ 

Asif Ali Zardari Co Chairman PPP



آصف علی زرداری ہماری قومی اور سیاسی زندگی کا اک نہایت دلچسپ کردار ہے۔ اپنے اردگرد موجود اشیاء، ماحول اور وسائل پر قبضہ کر کے من مانے انداز میں ذاتی فوائد حاصل کرنا اور اس سارے معاملے میں کسی مداخلت کی صورت میں خطرناک حد تک چلے جانا جناب آصف علی زرداری کی شخصیت کے بینادی اوصاف ہیں۔ جن کی روشنی میں اگر ماضی کے واقعات کو دیکھا جائے تو اک ڈرامائی طور پر حیران کن صورتحال سامنے آتی ہے۔

آغاز ہم1972کے پٹآرو کیڈٹ کالج سے کرتے ہیں جہاں آصف علی زرداری اک طالب علم تھے۔ آصف زرداری پیہم محنت سے ترقی کرنے کے قائل نہیں تھے۔ پڑھائی میں ویسے ہی ان کا دماغ نہیں چلتا تھا۔ کم ذہین اور محنت سے جی چرانے والے طالب علموں کا انجام ناکامی ہوتا ہے۔ آصف زرداری جو ان دنوں آصف بلوچ ہوا کرتے تھے اسی انجام سے دوچار تھے۔ اس ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کے لئے نوجوان آصف بلوچ کے ذہن میں اک اچھوتا خیال آیا اس نے نے اپنے تین ساتھیوں کے ہمراہ کالج کی ایڈمنسٹریشن پر قبضے کا منصوبہ بنایا۔ کالج کے پرنیسپل، وائس پرنسپل، برسر اور اٹینڈنٹ کے عہدے آپس  میں بانٹ لئے گئے۔ مگر محنت سے جی چرانے والے نوجوان کا منصوبہ کامیاب نہ ہوسکا اور اسے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ 1972 میں پٹآرو کیڈٹ کالج مری سے نکال دیا گیا۔ یوں کالج پر قنضہ کرکے ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کا آصف بلوچ کا منصوبہ کامیاب نہ ہوسکا۔

نوجوان آصف بلوچ اب آصف زرداری بن چکا تھا اور قسمت کی دیوی پورے ملک کے وسائل کی چابی ہاتھ میں لئے اس پر فدا ہونے جارہی تھی۔ ملک کی سب سے بڑی عوامی پارٹی کی نوجوان لیڈربے نظیربھٹو نے شادی کے لئے آصف زرداری کا انتخاب کیا تو انھیں قبضے کی اپنی خواہش کو بام عروج تک پہنچانے کا اک بہترین موقع ہاتھ آیا۔


Benazir Bhutto and Asif Ali Zardari wedding picture

بظاہر آصف زرداری اور بے نظیر میں کچھ بھی مطابقت نہیں رکھتا تھا، بے نظیر آکسفورڈ کی پڑھی جبکہ زرداری صاحب کو میٹرک سے پہلے ہی کالج سے نکال دیا گیا تھا۔ بے نظیر ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کی سربراہ تھیں جبکہ آصف زرداری نے زندگی میں اک دفعہ کونسلر کا الیکشن لڑا اور بری طرح شکست کھائی تھی۔ مالی لحاظ سے بھی دونوں میں کوئی مطابقت نہ تھی وہ پاکستان کے اک معروف سیاسی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور پاکستان کے اک مقبول وزیراعظم کی صاحبزادی تھیں دوسری طرف آصف زرداری کے والد اک کراچی میں اک سینما کے مالک تھے۔  اگر ذاتی شخصیت کی بات کریں بے نظیر اک متحرک اور شاندار شخصیت کی مالک تھیں جو جمیوری جدوجہد کے ذریعے عوام کی فلاح و بہبود پر بقین رکھتی تھیں جبکہ آصف زرداری دولت کے ان گنت انبار لگانے کی شدید خواہش کے ساتھ سازشوں کے تانے بانے بننے کے ماہر تھے.

تجزیہ نگار حیران ہیں کہ بے نظیر بھٹو جو بے پناہ قائدانہ صلاحیتوں کی مالک ہونے کے ساتھ ساتھ شخصیت شناسی میں بھی ملکہ رکھتی تھیں کیسے اک ایسے شخص سے شادی کا فیصلہ کیا جو کسی لحاظ سے ان کا ہم پلہ نہیں تھا۔



Benazir Bhutto and Asif Ali Zardari 


بے نظیر کے وزیراعظم بنے کے بعد زرداری صاجب کا وسائل پر قبضے کا شخصی وصف خوب چمکا اور انھوں نے ملک میں ہونے والے ہر سودے اور ڈیل میں اپنا حصہ وصول کرنا شروع کیا اور مسٹر ٹین پرسنٹ کا خطاب پایا۔ سندھ کی حد تک وہ بلاشرکت غیرے تمام معاملات کے مالک بن چکے تھے، یہاں تک کہ مرتضی بھٹو واپس وطن آگئے اور انھوں نے آصف زرداری کے انداز کو سخت ناپسند کیا۔ بھٹو کے حقیقی بیٹے ہونے کے ناطے جو پزیرائی ان کو حاصل تھی آصف زرداری کو اس سے اپنا ہاتھ رکتا محسوس ہوا۔ اپنے قبضے میں اس مداخلت کو زرداری صاحب نے سخت ناپسند کیا اور اک خطرناک کھیل کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ ملک کی اس وقت کی وزیراعظم کے بھائی کو ملک کے سب سے بڑے شہر میں جب بےدردی سے قتل کیا گیا تو مرتضی بھٹو کی صاحبزادی نے واضح انداز میں آصف زرداری کو اپنے باپ کا قاتل قرار دیا۔

زندگی آگے بڑھتی رہی اور آصف زرداری لوٹ کھسوٹ سےدولت کے انبار لگاتا گیا، بھائی کی موت سے دل گرفتہ بے نظیر بھٹو تک بھی آصف زرداری کی کرپشن کے قصے پہنچنے لگے تو بی بی نے آصف زرداری کا ہاتھ روکنے کا فیصلہ کیا۔ زرداری کو پارٹی کے سیاسی معاملات سے الگ کر دیا گیا، لندن میں محترمہ جلاوطنی کے دنوں میں زرداری صاحب نیو یارک میں مقیم رہے۔ اسی دوران محترمہ کی شہادت ہو جاتی ہے تو بہت ساری انگلیاں آصف زرداری کی طرف اٹھتی ہیں۔ محترمہ کے قتل میں آصف زرداری کے کردار سے قطعہ نظر یہ اک حقیقت ہے کہ بے نظیر کے قتل کے فورا بعد جس انداز میں آصف زرداری بروئے کار آئے اور اک جھوٹی وصیت کا سہارا لے کر جس طرح پارٹی ,جس سے وہ بے دخل کر دئیے گئے تھے, انھوں نے قبضہ کیا وہ محترمہ کے قریبی لوگوں کے لئے بہیت حیران کن تھا۔ یہ سارا عمل بذات خود اشارہ کرتا ہے جیسے وہ سارے معاملے کی پہلی تیاری کئے بیٹھے تھے۔

ہر طرف اک زرداری سب پر بھاری کے نعرے بلند ہونے لگے اور وہ خود ملک پر۔ پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور حکومت میں زرداری صاحب اپنےمخصوص انداز میں معاملات چلاتے رہے اک کے بعد اک کرپشن کا قصہ، میڈیا میں شور اور عدالتوں کی سرزنش  کے باوجود وہ مستقل مزاجی سے اپنی ڈگر پر چلتے رہے۔ قومی ادارے تباہ ہوتے گئے ملکی معیشت ڈولنے لگی اور عوام زرداری سے نجات کی دعائیں کرنے لگے۔

اگلے الیکشن کے بعد زرداری کے بوجھ تلے پیلپز پارٹی سندھ تک محدود ہو گئی۔ اب زرداری صاحب کا سارا بوجھ سندھ خاص طور پر کراچی پر پڑنے لگا۔ یہاں زمینوں کے قبضے سے لے کر اسلحہ کی سمگلنگ تک ہر غیر قانونی کام کی زرداری صاحب نے سرپرستی کی اور اپنا حصہ وصول کیا۔ یہاں تک تو معاملہ ٹھیک چل رہا تھا پھر کراچی کے خراب حالات کی سنگینی انتہائی حدوں کو چھونے لگی تو ملک کی عسکری قیادت نے اپنا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ پیپلز پارٹی کی انتہائی کرپٹ اوربے حسی کی حدتک نااہل حکومت کو عسکری قیادت کی طرف سے کئی بار متنبہ کیا گیا، سرزنش کی گئی مگر زرداری صاحب ان سب باتوں کو اپنے معاملات میں مداخلت قرار دے کر ناپسند کرتے رہے۔


جب ریینجرز نے مجرموں کو گرفتاریاں شروع کی تو زرداری صاحب جنرل راحیل شریف پر برس پڑَے۔ زرداری صاحب کا ماضی پٹارو کالچ سے پیپلز پارٹی کا شریک چئیرمین بننے تک گواہ ہے کہ وہ اپنی من مانی کے آڑے آنے والی ہر رکاوٹ سے بے خوف ہو کر ٹکراتے رہے ہیں۔ مگر اب معاملہ اس لحاظ سے مختلف ہے کہ جنرل راحیل شریف نے زرداری کا ہاتھ روکا ہے وہ کوئی عام شخصیت نہیں بلکہ اک طاقتور ادارے کے سربراہ ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ زرداری صاحب کی سازشنیں کامیاب ہوتی ہیں یہ پھر کامیابی جنرل راحیل شریف کا مقدر بنتی ہے۔


Admin / Author & Editor

Has laoreet percipitur ad. Vide interesset in mei, no his legimus verterem. Et nostrum imperdiet appellantur usu, mnesarchum referrentur id vim.

0 blogger-facebook:

Post a Comment

Coprights @ 2016, Blogger Templates Designed By Templateism | Distributed By Gooyaabi Templates