پاکستانی وزیر داخلہ چوہدری نثار کے مطابق دہشت گردی کا ہر واقعہ قابل مذمت ہے لیکن دہشت گردی اور آزادی کی جدوجہد میں فرق ہوتا ہے اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بےگناہ شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جانا دہشت گردی ہے۔
پاکستانی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان
اسلام آباد میں سارک کے رکن ملکوں کے وزرائے داخلہ کی کانفرنس سے خطاب کرتے
ہوئے چوہدری نثار نے کہا، ’’پاکستان میں ڈھاکا، کابل اور پٹھان کوٹ جیسے
دہشت گردی کے کئی واقعات ہوئے۔ اسلام آباد کو دہشت گردی کے باعث بہت بھاری
نقصان اٹھانا پڑا ہے۔‘‘
یہ کانفرنس اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی، جس میں پاکستان
سمیت سارک ممالک سے حکومتی حکام اور وزرائے داخلہ نے شرکت کی۔ اس کانفرنس
میں بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کی شرکت کے خلاف کشمیری تنظیموں نے آج
پاکستانی دفتر خارجہ کے سامنے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا، جس کے شرکاء سے
خطاب کرتے ہوئے کشمیری رہنماؤں نے کہا کہ پاکستان کو اس اجلاس کے سلسلے میں
بھارت کا بائیکاٹ کرنا چاہیے تھا۔
چوہدری نثار نے مزید کہا کہ گزشتہ چھ دہائیوں سے بھی زائد عرصے سے الزام
برائے الزام کا سلسلہ چل رہا ہے، جس سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ انہوں
نے دعویٰ کیا کہ پاکستان سارک کے تمام معاہدوں کی حمایت کرتا ہے اور تمام
مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا خواہاں ہے۔
صرف چوہدری نثار نے ہی کشمیر سے متعلق بات نہیں کی بلکہ کل بدھ کے روز
پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف اور آج جمعرات کے دن اسلام آباد میں دفتر
خارجہ نے بھی اسی مسئلے پر بیانات دیے۔ اس ساری صورت حال نے سارک کے دو بڑے
رکن ممالک کے درمیان کشیدگی کو ہوا دی ہے۔
بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ
تجزیہ نگاروں کے خیال میں پاکستان اور بھارت سارک کے فورم کو خطے کے مسائل
پر بات چیت کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر الزامات لگانے کے لیے استعمال کر
رہے ہیں، جو علاقائی تعاون کی اس جنوبی ایشیائی تنظیم کے لیے کوئی نیک شگون
نہیں ہے۔
اس صورت حال کے بارے میں ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے علامہ اقبال
اوپن یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکڑ امان میمن نے کہا، ’’کشمیر کے حوالے
سے پاکستان کا موقف سخت ہوتا جا رہا ہے اور اس کی ایک وجہ بھارتی رویہ ہے۔
آپ ساٹھ کشمیری لوگوں کو قتل کر کے، سینکڑوں کی بینائی متاثر کر کے، متعدد
کو جیلوں میں ڈال کر، کشمیر میں میڈیا اور بین الاقوامی اداروں کا داخلہ
بند کر کے پاکستان سے یہ امید نہیں کر سکتے کہ وہ کوئی نرم پالیسی اپنائے
گا۔ بھارتی رویے کی وجہ سے حکومت پاکستان پر بھی عوامی دباؤ بڑھا ہے اور
اسی وجہ سے اسلام آباد حکومت کا اس بارے میں موقف بھی سخت تر ہوتا جا رہا
ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر امان میمن نے کہا، ’’میرے خیال میں سارک کا
کوئی روشن مستقبل نہیں ہے، کیونکہ دو بڑے رکن ممالک کے درمیان تنازعات
موجود ہیں اور سارک کے تنظیمی ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے ان تنازعات کے حل
کا کوئی طریقہء کار واضح نہیں ہے۔ اس لیے سارک کی تنظیمی کامیابی کے
امکانات بہت کم ہیں۔ نئی دہلی کا حاوی ہونے والا رویہ سارک کے لیے نقصان دے
ہے۔ حا ل ہی میں سری لنکا چین سے زمین دینے کے حوالے سے کوئی معاہدہ کرنا
چاہتا تھا۔ بھارت نے دباؤ ڈال کر اسے رکوا دیا۔ تو اس طرح کے رویے کسی
علاقائی تنظیم کے لیے اچھے نہیں ہوتے۔‘‘
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ چند ہفتوں سے جاری خونریزی کی لہر
کے خلاف کئی پاکستانی شہروں میں اب تک متعدد مرتبہ احتجاجی مظاہرے کیے جا
چکے ہیں
اسی بارے میں وفاقی اردو یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد نے
ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک
بار پھر دو واضح نقطہ ہائے نظر ابھر کر سامنے آرہے ہیں۔ ایک طرف نواز شریف
یہ بات کر رہے ہیں کہ کسی غیر ریاستی عنصر کو پاکستان کی سرزمین کسی دوسرے
ملک کے خلاف استعمال نہیں کرنے دی جائے گی تو دوسری طرف حافظ سعید جیسے
رہنما اور ان کے حامی پورے ملک میں مظاہرے کر رہے ہیں اور فوج سے مطالبہ کر
رہے ہیں کہ وہ کشمیر کو آزاد کرائے۔ تو خطے میں امن کے حوالے سے ایک رائے
سویلین حکومت کی ہے اور دوسری ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر توصیف احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’کشمیر پر
پاکستانی موقف سخت ہوتا جا رہا ہے۔ بنیادی طور پر یہ اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی
ہے کہ اس طرح کا سخت موقف اپنایا جائے۔ سارک کانفرنس میں چوہدری نثار کا
بیان بھی عسکری حلقوں کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ اس طرح کے بیانات سے بھارت
اور پاکستان میں تعلقات بہتری کی طرف نہیں جائیں گے بلکہ معاملات صرف بگڑیں
گے، جس سے خطے کو نقصان ہوگا،‘
0 blogger-facebook:
Post a Comment