خالد المعینا |
ایک مرتبہ پھر کشمیر شہ سرخیوں میں ہے۔پچاس سے زیادہ مظاہرین شہید ہوچکے،نوجوانوں کو (پیلیٹ گولیوں) سے اندھا کردیا گیا اور تھوک کے حساب سے گرفتاریاں کی گئی ہیں۔بھارتی میڈیا اس تمام صورت حال پر خاموش رہا ہے۔ماسوائے ان کے جنھوں نے ٹیلی ویژن نیٹ ورکس پر قبضہ کررکھا ہے اور وہ داعش اور طالبان کے بارے میں مزاحیہ انداز میں غوغا آرائی کرتے ہیں۔
حقیقت
تو یہ ہے کہ ان رٹو طوطوں میں سے بعض نے ان نوعمروں کی مزید ہلاکتوں کی
بات کی ہے جو اجتماعی عصمت ریزیوں ،ماورائے عدالت قتل اور نوجوانوں کو
لاپتا کرنے کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔یہ کھلے حقائق ہیں اور بھارت کے قومی
انسانی حقوق کمیشن نے بھی ان کو تسلیم کیا ہے،ان کی تصدیق کی ہے۔
میڈیا
ریاستی پروپیگنڈے ہی کی تشہیر کررہا ہے اور خطے کی حقیقی صورت حال کو
مسموم کررہا ہے۔چند ایک صحافی حضرات ہی ذمے داری کا احساس کرتے ہوئے حقیقی
صورت حال کے بارے میں کچھ لکھ رہے ہیں۔برکھا دت نے این ڈی ٹی وی پر اپنے
پروگرام میں اس ایشو کو گفتگو کا موضوع بنایا۔موجودہ صورت حال پر ایک
دانشورانہ مباحثے کو دیکھنے کا یہ دراصل ایک حوصلہ افزا تجربہ تھا۔
ارون
دتی رائے ایسی دانشوروں نے بھی کشمیریوں کے بارے میں لکھا ہے۔کشمیری امن
اور وقار کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔وہ اپنے خطے میں فوجیوں کی موجودگی نہیں
چاہتے کیونکہ وہ ان کی خواتین کو پوچھ تاچھ کے لیے پکڑ لیتے اور ان سے
ناروا سلوک کرتے ہیں۔وہ یہ بھی نہیں چاہتے کہ وہ جب کسی صبح کو بیدار ہوں
تو وہ یہ سنیں کہ ان کے خاندان کے کسی رکن کو ہلاک کردیا گیا ہے یا پھر
غائب کردیا گیا ہے۔جیسا کہ ایک اُبھرتے ہوئے نوجوان کرکٹر کے ساتھ یہی
معاملہ پیش آیا ہے اور اس کو فوج نے ہندواڑہ کے علاقے میں ایک کارروائی میں
موت سے ہمکنار کردیا ہے۔
کشمیریوں سے تشدد کے ذریعے اعترافی بیانات
لینے سے متعلق باتیں اب عام ہوتی جارہی ہیں۔عام لوگ ان کے بارے میں گفتگو
کررہے ہیں۔بلال ڈار کا کہنا ہے کہ انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور
دوسروں کو ماخوذ کرنے کے لیے انھیں غلط بیانات دینے پر مجبور کیا گیا۔میڈیا
کا ایک بڑا حصہ دستانے پہنے سکیورٹی ایجنسیوں کے ہاتھوں میں کھیل رہا
ہے۔من گھڑت خبروں کی شرح بلند تر ہوچکی ہے۔اپنے دفاع میں مہلک ہتھیاروں اور
فوجی طاقت کے بلا امتیاز استعمال کا تناسب خطرناک سطح پر پہنچ چکا ہے۔
بھارت
کی موجودہ سیاست کی فرقہ وار نوعیت جلتی پر تیل کا کام دے رہی ہے اور آگ
کے شعلوں کو مزید بلند کررہی ہے۔کشمیر کوئی مذہبی معاملہ نہیں ہے۔ شیخ
عبداللہ نے برسوں قبل کہا تھا:''یہ ضروری نہیں کہ ہماری ریاست کو بھارت یا
پاکستان کا حصہ بن جانا چاہیے''۔ آج کے کشمیری بھی اسی بات میں یقین رکھتے
ہیں۔میری یہاں یا دنیا میں کسی اور جگہ کسی ایک بھی ایسے کشمیری سے ملاقات
نہیں ہوئی ہے جس کا یہ کہنا ہو کہ ہم پاکستان کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں۔
لندن
میں ایک کشمیری ڈاکٹر نے مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''یہ تو ایسے
ہی ہے جیسے فرائنگ پین سے آگ میں کود جایا جائے''۔بھارت کو اس حقیقت کا
ادراک کرنا چاہیے۔آر ایس ایس ،شیوسینا اور ایسی ہی دوسری تنظیموں ،پُرامید
سیاست دانوں اور شہرت کے حریص میڈیا کے لوگوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ
قوم کو مشتعل کرنے کے الم ناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
کشمیر کو عام طور پر
''مشرق کا سوئٹزر لینڈ'' کہا جاتا ہے اور اس کے عوام اس کو ایسا ہی دیکھنا
چاہتے ہیں۔ وہ یہی تو چاہتے ہیں کہ جب وہ بیدار ہوں تو ایک آزاد فضا میں
سانس لیں۔خوبصورت مہکتے پھولوں اور درختوں کی کونپلوں کی خوش بُو کو
سونگھیں اور انھیں فوجی بوٹوں اور بندوق سے گولیاں چلنے کی آواز ہرگز ہرگز
بھی سنائی نہ دے اور ان کا یہ کوئی بہت بڑا مطالبہ نہیں ہے۔
0 blogger-facebook:
Post a Comment